نظامِ تعلیم


.

علم کی قدیم و جدید مغربی یا مشرقی میں تقسیم درست نہیں۔ ہماری تو شروعات ہی اقراء سے ہوتی ہے، یعنی پڑھو ہر مخلوق کو،انفس و آفاق ہو، بحر و بر ہو، ذرہ ہو یا خلیہ یا تاحدنگاہ پھیلی پراسرار کائنات ،جمادات ہوکہ نباتات،کھوجو اس علم کو جو قلم کے راستے سے ہو، جسے قرآن نے یعلم کہہ کر پکارا ہے۔
نظام تعلیم کی حدود یہاں تک محدود نہ ہو کہ صرف فنون جمیلہ و لطیفہ،فن تعمیر، کاغذ کے چند حروف یا قدیم نقش و نگار کے ورثہ Heritage سے ملت کو آشنائی دے، بلکہ نئی نسل تک اس علمی ورثے کو منتقل کرے، جس پر اسلاف کی قوت اور طویل مدت صرف ہوئی ہو جو وحی الٰہی تک جاتا ہو۔
نظریہ ideas ، افادیتvalues، عقائد اور حقائق کا جدید نسل کو ترجمان اور محافظ بنائے، جو ان کے لئے کوئی خارجی عنصر نہ رہے بلکہ وہ ان کا مزاج بنے جو ان میں رچ بس جائے۔
اگر ایسا نہیں اور نظام تعلیم نہ صرف قدیم و جدید میں تقسیم کا قائل ہو بلکہ اس فلسفے کا محافظ بن جائے جس سے نسل اور پورا عہد اپنے ورثے سے شک میں پڑجائے تو فرد کے دل و دماغ میں جاری کشمکش پوری ملت میں سرایت کرجاتی ہے۔
گہری ہوتی یہ خلیج افراد سے اداروں میں پھیل جاتی ہے پھر بیوروکریسی ہو ، فوج ہو یا معاشرے پہ اثرات ڈالنے والا کوئی ادارہ، اسے دنیا کی کوئی طاقت معاشی یا حکمت عملی سے روک نہیں پاتی۔حقائق facts & figuresکو میڈیا کی نظر سے دیکھا جاتا ہو جس پر پڑھی لکھی جہالت اور مخصوص سوچ غالب ہو،جب کہ حکومتی معاملات میں کھلی مداخلت اور پالیسیوں پر اثراندازmedia houses اور ضمیر فروش صحافتی افراد سپریم کورٹ آشکار کرچکا ہے۔
قدیم و جدید کی یہ سوچ اپنے محدود اطراف طے کرنے لگتی ہے، وہ لال مسجد ہو، قدیم قبائل سوات کا آپریشن یا گل مکئی ملالہ کا planted plate form ہو، دو انتہاؤں کی تقسیم در تقسیم ہے اب ہمیں احساس ہوچکا ہے لال مسجد کمیشن کی رپورٹ میں واضح گائیڈ لائن دی گئی ہے۔
کورکمانڈر پشاور اور پرویز اشفاق کیانی کے ایبٹ آباد میں دیئے گئے دوٹوک بیان سے اس شدت کا احساس کیا جاسکتا ہے۔
ایک ایسا وقت جس میں جغرافیہ تبدیل، نظریئے بدل رہے ہوں، عالم اسلام فوج کی روایتی بالادستی مسترد کرچکا ہو جس کی واضح مثالیں ترکی،مصر،الجزائر میں دیکھ چکے ہیں، بے حد احتیاط کی ضرورت ہے۔ معاشرے کو تقسیم سے بچانا ہوگا،ہم عبوری دور سے گذر رہے ہیں، جس میں لمحوں کی غلطی صدیوں تک سہنا پڑتی ہے، ہرفیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا،ہمارے سامنے ہمارے اپنے ہی لوگ ہیں ، جن کے دل مومن میں چند سوالات ہیں، دل سے دماغ تک کے اس فاصلے کو عبور کرکے ہم انقلاب لاسکتے ہیں۔

Your Reply